مجھے ہر چند دن کے بعد ایک واقعہ سننے میں‘ پڑھنے میں‘ ضرور ملتا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ خواہشات کا ختم نہ ہونے والا ایک ایسا سمندر جو جسم میں آگ لگاتا ہے اور پھر انسان کی نظروں‘ تنہائیوں اور جذبات کو غیرشرعی حدود میں اتنا داخل کرتا ہے کہ واپسی ناممکن ہے۔میرے پاس اس ضمن میں بہت سے ایسےواقعات آئے‘ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ آپ کے سامنے بیان کروں؟
سوشل میڈیا ‘ ہماری غذائیں اور ان کے اثرات
لامحدود خواہشات نے دیوانہ اور وحشی بنا دیا ہے‘ لامحدود خواہشات کی بنیاد ہماری غذائیں اورموجودہ سوشل میڈیا‘ اس کا اس سے بہت زیادہ تعلق ہے۔ کوئی بھی چیز خراب نہیں ہوتی‘ ہرچیز کے دو پہلوہوتے ہیں۔ اب ایک شخص بجلی کی تار کو خود اپنے گلے لگائے اور کہے کہ بجلی سے کرنٹ لگتا ہے اور انسان مر جاتا ہے لیکن اسی بجلی کے کتنے نفع‘ اسی کرنٹ کے کتنے فوائد ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کا فائدہ اور اسی طرح اس کے نقصانات ہیں۔ اس سوشل میڈیا نے انسانی زندگی کو ایک انتہائی دھانے پر کھڑا کردیا ہے لیکن یہی سوشل میڈیا انسانی زندگی کو اعلیٰ سے اعلیٰ خیریں‘ برکات‘ سعادتیں اورنعمتیں بھی دیتا ہے۔ اب یہ ہمارا اپنا انتخاب ہے ہم خیر کو چنتے ہیں یا شر کو۔ ہم خیر کے چاہنے والے ہیں یا شر کے چاہنے والے ہیں۔
اپنی غذائوں پر نظر رکھیں!
لامحدود خواہشات کی وجہ سےمیں نے بہت سے گھر ٹوٹتے دیکھے۔ ان خواہشات میں لباس‘ کھانا‘ باہر کی شاپنگ اور وہی خواہشات جو بستر تک انسان کو ایسی چیزوں پر مجبور کردیتے ہیں کہ انسان زبان سے اور الفاظ سے بیان نہیں کرسکتا۔ انسان کے الفاظ ختم ہوجاتے ہیں۔
میں آپ کو کیا بیان کروں‘ میرے پاس الفاظ ختم‘ جذبات ہیں‘ لوگوں سے سنے تجربات ہیں لیکن الفاظ نہیں ہیں۔ اپنی غذاؤں پر نظررکھیں‘ ان میں سادگی لائیں اگر غذاؤں کو سادہ نہ کیا تو جذبات قابو سے باہر آجائیں گے‘ خواہشات لامحدود ہوں گی۔ ہاں یاد رکھیں ضروریات کی حدیںہیں‘ خواہشات کی حد نہیں‘ ضروریات پوری ہوجاتی ہیں لیکن خواہشات لامحدود ہیں اور کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ ان خواہشات کو اگر روکنا ہے تو یاد رکھیں ان کا غذاؤں کے ساتھ بہت زیادہ تعلق ہے۔کیوں فقرا کی خانقاہوں میں سادہ کھانا‘ پھیکا کھانا‘ پھیکی روٹی‘ پھیکا بھات پکتا تھا‘ حتیٰ کہ فقرا کے لباس رنگ بھی بہت ہلکے ہوتے تھے‘ رنگوں کا زندگی پر اثر‘ غذاؤں کا زندگی پر اثر ہے۔ اگر ہم نے اپنی نسلوں کی غذا پر نظر نہ ڈالی تو زندگی میں بہت زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔
ہاسٹل کی زندگی کےاثرات
ایک خاتون کہنے لگی کہ بیٹے ہاسٹل میں رہتے تھے‘ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گھر آئے‘ ان کی چال‘ الفاظ اور جذبوں نے مجھے مشکوک کیا‘ بس میں نے کیا کیا؟ مصالحہ دار کھانے‘ گوشت‘ چیزیں ہٹا کر سادہ کھانے انہیں کھلانے شروع کردئیے‘ چند ہی دنوں کے بعد ان کے لہجے‘ رویے‘ الفاظ‘ اور ترچھی اور تیکھی نگاہوں نے سلیقہ لے لیا اور ان کی اداؤں نے بتایا کہ ان کے اندر اٹھی ہوئی آگ بہت ساری بجھ گئی ہے۔
ایک درخواست! یہ ظلم مت کیجئے
جی ہاں! یہ سچ ہے ‘ ہماری زندگی کا بیشتر حصہ ہماری غذائیں لے جاتی ہیں جو غذا ہم کھارہے ہیں اور وہ غذا ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور‘ کچھ اور کرنے پر مجبور کچھ اور قدم بڑھانے پر بے تاب کرتی ہے۔ میں بہت مجبور ہوکر حال دل کے یہ الفاظ لکھ رہا ہوں۔ لیکن میرے پاس الفاظ نہیں جذبات اور کیفیات اور بے شمار زندگی بھر کی سنی کہانیاں ہیں جو میں بیان کروں‘ بس اتنی درخواست ضرور کروں گا‘ اپنی غذاؤں پر نظر رکھیں‘ کبھی کبھار زندگی میں کوئی چیز ایسی کھالینا کوئی حرج نہیں لیکن اپنی زندگی کا معمول بنالینا بہت ظلم اور اپنے ساتھ بہت زیادتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں